قرآن کی دعوت پر ردعمل

 عنوان:۔      


           "" قرآن کی دعوت پر ردعمل ""



مخلص توحیدی ساتھیو السلام علیکم! 


قرآن اللہ کی وہ کتاب ہے، جس میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ اللہ کے پاک پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے نزول کے بعد اپنے وصال تک دعوت قرآن کو عام کیا ہے، اس دعوت قرآن کو عام کرتے ہوئے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا بہت سے لوگوں سے سامنا ہوا۔ قرآن کی دعوت دینے کے بعد دو طرح کے لوگ سامنے آتے ہیں۔ ایک ہیں ایمان والے اور دوسرے لوگ ہیں کافر 


جو بندہ قرآن کی دعوت کو سن جر قبول کر لے، قرآن کی دعوت کو سن کر اس کا ایمان بڑھے ایسے لوگ مومن ہیں اور جو لوگ قرآن سن کر ، قرآن کے مقابلے میں دلائل دیں، قرآن کی دعوت کے مقابلے میں رکاوٹ بنیں، قرآن پھیلانے والے کے رستے میں رکاوٹ بنیں، ایسے لوگ کافر ہیں 


اللہ نے ایمان والوں کا بھی ذکر کیا ہے اور ایسے کافروں کا بھی قرآن میں ذکر کیا ہے 


سب سے پہلے ایمان والوں کا ذکر اللہ کرتے ہیں 


اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ 


بے شک مومن وہ لوگ ہیں جن کے سامنے جب اللہ کا قرآن پڑھا جائے 


وَجِلَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ


ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں 


ان کے دل میں ایمان کا جذبہ پیدا ہوجاتا ہے ، ان کے دل کو سکون ملتا ہے 


 وَ اِذَا تُلِیَتۡ عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتُہٗ زَادَتۡہُمۡ  اِیۡمَانًا 

جب ان کے سامنے اللہ کی آیات تلاوت کی جائیں، ان کا ایمان بڑھ جاتا کے 


معلوم ہوا مومن وہ ہے جو قرآن سن کر خوش ہوتا ہے، جن کا قرآن سن کر ایمان مزید ترقی کرتا چلا جاتا ہے 


اور کافروں کے بارے میں اللہ کریم فرماتے ہیں


وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا


جو لوگ کافر ہیں وہ کہتے ہیں 


لَا تَسۡمَعُوۡا لِہٰذَا الۡقُرۡاٰنِ


قرآن کو سننے کی ضرورت ہی نہیں 


جب بھی تمھارے سامنے قرآن پڑھا جائے، تم سنو ہی مت 


وَ الۡغَوۡا فِیۡہِ  


اور شور مچایا کرو 


جب بھی کوئی قرآن کی دعوت دے،تم انتشار پھیلایا کرو، قرآن کی دعوت میں رکاوٹ بن جایا کرو، جب بھی کوئی قرآن کی دعوت دے قرآن کے خلاف دلیل دیا کرو، جب بھی کوئی قرآن کے بات کرے، اس کے سامنے بہانے جیا کرو


کیونکہ 


لَعَلَّکُمۡ تَغۡلِبُوۡنَ


تا کہ تم غالب آ جاو 


کیونکہ کافروں کو پتہ ہے جب قرآن لوگوں کو سمجھ آگیا پھر سب کہ سب اللہ کے قرآن کی طرف ہو جائیں گے، اس لیے قرآن کی دعوت کو جب روکا جائے گا ، پھر مسلمان قرآن کو نہ سمجھ سکیں گے اور کافر غالب آ جائیں گے


 کافر کہتے ہی

  

 لَا تَسۡمَعُوۡا لِہٰذَا الۡقُرۡاٰنِ

قرآن کو سننے کی ضرورت ہی نہیں


جبکہ اللہ فرماتے ہیں جب قرآن پڑھا جائے


فاستمعو 


قرآنان کو سنا کرو 


پھر کافر کہتے ہیں 


وَ الۡغَوۡا فِیۡہِ  


اور شور مچایا کرو


جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جب قرآن پڑھا جائے


لہ وانصتو 


تم خاموش رہا کرو 


کافر کہتے ہیں قرآن پڑھا جائے تو شور مچاو تا کہ 


لَعَلَّکُمۡ تَغۡلِبُوۡنَ


تا کہ تم غالب آ جاو


جبکہ اللہ فرماتے ہیں جب قرآن پڑھا جائے تم خاموش رہا کرو 


لعلکم ترحمون 


تا کہ تم پر رحم جائے 


اور جس پر رحم کیا جائے، غالب وہی لوگ آتے ہیں


جو قرآن سن کر خاموش رہے اور مانے وہ مسلمان ہے، جو قرآن کو سن کر کہے کہ قرآن سے فرقہ واریت ہوتی ہے، قرآن سے لوگوں میں لڑائی ہوتی ہے تو یہ لوگ قرآن پھیلانے میں رکاوٹ بننے والے ہیں اور یہ اپنا حال قرآن کی نظر میں دیکھ لیں 


گروپ کیا اگر جان بھی قرآن کی خاطر جائے تو قربان کر دو لیکن جب تک پورے قرآن پر ایمان نہیں لاو گے، مسلمان کہلوانے کے مستحق نہیں بن سکتے۔اس لیے قرآن کو سنو اور پھیلاؤ بے شک مخالفت ہوتی ہے تو ہوتی رہے لیکن سچے مسلمان کا مقصد پورے قرآن کو لوگوں میں عام کرنا ہے 


طالب دعا/ازقلم


حسن ساجد

Comments